آسام شہریت معاملہ: متنازعہ سرکلرکو لیکر اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کے خلاف نوٹس جاریآپ نے اجازت لئے بغیر اس طرح کا سرکلر کیوں جاری کیا؟ عدالت کا اسٹیٹ کوآرڈینیٹرسے استفسار سوال یہ ہے کہ متنازعہ سرکلرکس کے اشارے پر جاری ہوا؟: مولانا ارشد مدنی


آسام شہریت معاملہ: متنازعہ سرکلرکو لیکر اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کے خلاف نوٹس جاری

آپ نے اجازت لئے بغیر اس طرح کا سرکلر کیوں جاری کیا؟ عدالت کا اسٹیٹ کوآرڈینیٹرسے استفسار سوال یہ ہے کہ متنازعہ سرکلرکس کے اشارے پر جاری ہوا؟: مولانا ارشد مدنی

نئی دہلی31/جنوری2021 (پریس ریلیز) آسام کے نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر ہتیش دیوشرماکے ذریعہ این آرسی کولیکر جاری کئے گئے ایک متنازعہ نوٹیفیکیشن کے خلاف جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی طرف سے داخل کی گئی پٹیشن پرسپریم کورٹ کی چیف جسٹس کی سربراہی والی بینچ نے نوٹس جاری کرکے اسٹیٹ کوآرڈینیٹرسے تحریری جواب طلب کیا ہے اور4 ہفتے کے اندران سے یہ بتانے کو کہاگیا ہے کہ انہوں نے اجازت لیئے بغیر اس طرح کا سرکلرکیوں جاری کیا؟ضابطہ کے مطابق سرکلرجاری کرنے سے پہلے آپ کو این آرسی مانیٹرنگ پینل سے اجازت لینی چاہئے تھی۔واضح ہوکہ پٹیشن وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی کے توسط سے داخل کی گئی تھی اورگزشتہ روز سینئرایڈوکیٹ کپل سبل جرح کیلئے جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے عدالت میں موجودتھے، پٹیشن میں عدالت سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ اس طرح کا نوٹیفکیشن جاری کرکے درحقیقت اسٹیٹ کوآرڈینیٹرنے عدالت کی طرف سے وقت وقت پردی گئی ہدایات اور فیصلوں کی صریحاًخلاف ورزی کی ہے،اس لئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹرکے خلاف مقدمہ چلایا جاناچاہے ۔ پٹیشن میں مزید کہا گیاتھا کہ این آرسی کا پوراعمل سپریم کورٹ کی نگرانی میں مکمل ہوا ہے، چنانچہ ایسا کرکے مسٹرہتیش دیوشرما سپریم کورٹ کی اب تک کی تمام حصولیابیوں پر پانی پھیردینا چاہتے ہیں، جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء نے یہ دلیل بھی دی کہ 23جولائی 2019کو اپنے ایک اہم فیصلے میں عدالت این آرسی میں شامل ناموں کی ری ویریفیکیشن کی عرضی مسترد کرچکی ہے، اسی طرح 7اگست2019کو عدالت نے اس وقت کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹرمسٹرپرتیک ہزیلا اور رجسٹرارآف انڈیا کے ایک اخباری انٹرویودینے پر سخت برہمی کااظہارکیا تھا اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ وہ آئندہ عدالت کی اجازت کے بغیر پریس سے کوئی بات نہیں کرینگے، فاضل ججوں نے ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ آپ لوگ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہی این آرسی کا کام دیکھ رہے ہیں، اس لئے آپ لوگ جو کچھ کہیں گے اسے عدالت کی منشاء یا رائے سمجھاجائے گا چنانچہ ایسا کرکے آپ لوگ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں، اس پر ان دونوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ وہ ایسی غلطی نہیں کریں گے، جمعیۃعلماء ہندکے وکلاء نے ان دونوں فیصلوں کو بنیادبناکر یہ سوال اٹھا یا ہے کہ جب عدالت پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ اب کوئی ری ویریفیکیشن نہیں ہوگا تو اسٹیٹ کوآرڈینیٹرنے کس کی اجازت سے ری ویریفیکیشن کا سرکلرجاری کیا؟، واضح ہوکہ یہ نوٹیفیکشن این آرسی سے ان لوگوں کو نکال باہر کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے جو مشتبہ ہیں یا ڈی ووٹرہیں یا پھر فارن ٹریبونل نے جن کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، نوٹیفیکشن میں ریاست کے تمام اضلاع کے رجسٹرارآف سٹیزن رجسٹریشن سے واضح طورپر کہا گیا ہے کہ وہ نہ صرف ایسے لوگوں بلکہ ان کے اہل خانہ (اجداد)کے نام بھی این آرسی سے ہٹادیں،پچھلی سماعت پر جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء نے سوال کیا کہ کیا اسٹیٹ کوآرڈینیٹرنے عدالت کو اعتمادمیں لیکر ری ویریفیکیشن کروایا ہے؟ اگر نہیں توکیا ایسا کرکے انہوں نے عدالت کے ضابطہ کی خلاف ورزی نہیں کی ہے؟ یہی نہیں 13اگست 2019کواپنے ایک فیصلے میں عدالت نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ وہ بچہ جو 2004سے قبل پیداہوا ہے اگر اس کے والدین میں سے کسی ایک کانام این آرسی میں شامل ہوگا تو اسے ہندوستانی سمجھاجائے گا، مذکورہ سرکلر اس فیصلے کے بھی سراسرخلاف ہے،کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ مشتبہ ہیں،ڈی ووٹر ہیں یا پھر فارن ٹریبونل میں جن کے معاملہ التوامیں ہیں وہ سب غیر ملکی ہیں، اس لئے نہ صرف ان کا بلکہ ان کے اہل خانہ کا نام بھی این آرسی سے ہٹادیا جائے، وکلاء نے دلیل دی کہ اس بنیادپر اسٹیٹ کوآرڈینیٹرکے خلاف توہین عدالت کا معاملہ بنتاہے،اس وقت عدالت نے درخواستوں میں ترمیم کرنے کو کہاتھا تاکہ توہین عدالت کی درخواست کو ہٹایا جاسکے۔ آج کی سماعت میں بینچ نے ترمیم شدہ درخواست کو مرکزی معاملہ (این آرسی مانیٹرنگ بینچ)کی درخواستوں میں ضم کردیا اوراسٹیٹ کوآرڈینیٹرکو وجہ بتاؤنوٹس جاری کردی۔قابل ذکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند اور آمسودونوں نے اس متنازعہ سرکلر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جمعیۃعلماء ہند اور جمعیۃعلماء صوبہ آسام، آسام شہریت معاملہ میں مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر مسلسل قانونی چارہ جوئی کرتی آئی ہیں، جس میں انہیں کامیابی ملتی رہی ہے۔جمعیۃعلماء ہندکے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وکلاء نے پوری تیاری کے ساتھ عرضی داخل کی ہے جس میں اہم نکتوں کی طرف عدالت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ پہلی ہی نظرمیں لگتاہے کہ نئے اسٹیٹ کوآرڈینیٹرنے اس معاملہ میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ عدالت کا اسٹیٹ کوآرڈینیٹرکے خلاف نوٹس جاری کرنا یہ ظاہر کرتاہے کہ ان کا قدم غلط ہے، لیکن، اپنی جگہ یہ سوال بہت اہم ہے کہ آخرانہوں نے کس کے اشارے یا حکم پر ایسا کیا؟ مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ این آرسی کے پورے عمل کی سپریم کورٹ خودنگرانی کررہی ہے، یہاں تک کہ رجسٹرارآف انڈیا اور اس وقت کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹرنے جب ایک انگریزی کے اخبارسے گفتگوکی تھی تو اس پر عدالت نے ان کی سخت سرزنش کی تھی اور کہا تھا کہ وہ آئندہ عدالت کے علم لائے بغیر کوئی کام نہیں کرے گی، عدالت دوبارہ این آرسی کرانے یا ری ویریفیکیشن کی ضرورت کو پہلے ہی مسترد کرچکی ہے، ایسے میں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ اب جب کہ این آرسی کا عمل مکمل ہوچکاہے اور اس سے باہر رہ گئے تقریبا 19 لاکھ لوگوں کا مسئلہ باقی رہ گیا ہے،اس میں تقریبا 13لاکھ غیرمسلم، اورقریب 6لاکھ مسلمان ہیں۔ اسٹیٹ کوآرڈینیٹرنے اپنے طور پر ری ویریفیکشن کرواکر اس طرح کا حکم نامہ جاری کرکے ایک بارپھر پوری ریاست میں ڈراورخوف کی فضاپیداکرنا چاہ رہے ہیں اوران لوگوں کو بھی کسی نہ کسی طرح این آرسی سے نکال باہر کردینا چاہ رہے ہیں جو اپنی شہریت ثابت کرچکے ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند مذہب سے اوپر اٹھ کر صرف انسانیت کی بنیادپر آسام شہریت معاملے کو لیکر ابتداہی سے قانونی جدوجہد کررہی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ یہ مسئلہ ایک ایساانسانی مسئلہ ہے جس میں ایک چھوٹی سی غلطی سے پورے پورے خاندانوں کی زندگیاں تباہ بربادہوسکتی ہیں، اور اس صورت میں ہمارے ملک میں ایک بڑاانسانی بحران بھی پید اہوسکتاہے، انہوں نے کہا کہ جب گوہاٹی ہائی کورٹ نے پنچائیت سارٹفیکٹ کو شہریت کا ثبوت ماننے سے انکارکردیا تھا توآسام میں تقریبا 48 لاکھ شادی شدہ خواتین کی زندگیوں پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا، اس فیصلے سے تقریبا 25لاکھ مسلم اور 23لاکھ ہندوخواتین کی شہریت چھن جانے کا خطرہ پیداہوگیا تھا، ایسے وقت میں یہ جمعیۃعلماء ہند تھی جو اس اہم مسئلے کو سپریم کورٹ لیکر گئی تھی، سپریم کورٹ نے جمعیۃعلماء ہند کے موقف کو تسلیم کرکے پنچائیت سرٹیفیکت کو شہریت کا ثبوت مان لیا انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد میں نے اپنے ایک ردعمل میں کہاتھا کہ میری پوری جماعتی زندگی میں اس سے پہلے مجھے اتنی خوشی کبھی نہیں محسوس ہوئی جتنی کی آج ہورہی ہے، کسی کانام لئے بغیر انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ اس مسئلہ کو ابتداہی سے مذہب کی عینک سے دیکھ تے آئے ہیں لیکن ہم اس مسئلے کو انسانیت کی نظرسے دیکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم عدالتوں میں شہریت معاملے کو لیکر آسام کے تمام شہریوں کے مفادکی لڑائی لڑرہے ہیں، انہوں نے آخرمیں کہا کہ اس طرح کے ہر معاملے میں عدالت سے ہمیں انصاف ملاہے چنانچہ اس  معاملے میں بھی ہم توقع کرتے ہیں ہے کہ عدالت کاجوبھی فیصلہ آئے گاوہ آسام کے تمام شہریوں کے وسیع ترمفادمیں ہوگا۔ فضل الرحمن قاسمی: پریس سکریٹری جمعیۃعلماء ہند
9991961134

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی