سوپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی تاریخ کی شرمناک ترین واردات، امریکی پارلیمنٹ پر ٹرمپ حامیوں کا حملہ، ۵؍ہلاکدارالحکومت واشنگٹن میں ایمرجنسی نافذ، بموں، لاٹھی ڈنڈوں ، سلاخوں سے مسلح کیپٹیل ہل کے اندر گھس کر مظاہرین نے بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کی، اراکین کانگریس نے کرسیوں کے پیچھے چھپ کر جانیں بچائیں، آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے، پورے دارالحکومت میں کرفیو، ٹرمپ کے تمام سوشل میڈیا اکائونٹس بند، بائیڈن نے حملے کو بغاوت قرار دیا، یوروپی یونین نے مذمت کی


سوپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی تاریخ کی شرمناک ترین واردات، امریکی پارلیمنٹ پر ٹرمپ حامیوں کا حملہ، ۵؍ہلاک

دارالحکومت واشنگٹن میں ایمرجنسی نافذ، بموں، لاٹھی ڈنڈوں ، سلاخوں سے مسلح کیپٹیل ہل کے اندر گھس کر مظاہرین نے بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ کی، اراکین کانگریس نے کرسیوں کے پیچھے چھپ کر جانیں بچائیں، آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے، پورے دارالحکومت میں کرفیو، ٹرمپ کے تمام سوشل میڈیا اکائونٹس بند، بائیڈن نے حملے کو بغاوت قرار دیا، یوروپی یونین نے مذمت کی

واشنگٹن، 8 جنوری(ایجنسی) نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی انتخابات میں جیت کی توثیق کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی بے قابو ہوگئے اور امریکی پارلیمنٹ کی عمارت کیپیٹل پردھاوا بول دیا۔ان حمملوں میں پانچ افراد ہلاکاور درجنوں زخمی ہوگئے، مظاہرین لاٹھی، ڈنڈے اور جھنڈے لیے عمارت میں گھس گئے، توڑ پھوڑ کی اور پولیس سے جھڑپوں میں کئی اہلکار زخمی ہوئے جس کے بعد پولیس کو شیلنگ کرنا پڑی ، ارکان کانگریس عمارت میں محصور ہوگئے، کرسیوں کے پیچھے چھپ کر جانیں بچائیں۔اطلاع کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے بدھ کو کیپیٹل ہل کی عمارت پر اس وقت دھاوا بول دیا جب کانگریس میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی صدارتی انتخابات میں فتح کی توثیق کے لیے اجلاس جاری تھا۔صدر ٹرمپ کئی ہفتوں سے تین نومبر کو ہونے والے انتخابات میں فراڈ کے دعووں کے ذریعے اپنے حامیوں کو اس عمارت پر مارچ کرنے کی ترغیب دینے میں مصروف تھے جسے امریکہ میں جمہوریت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔جو بائیڈن کی جیت کو چیلنچ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کئی بار بدھ کو واشنگٹن پر مارچ کرنے  پر اکسایا جب امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں الیکٹورل کالج کے نتائج کی توثیق کے لیے اجلاس طے تھے۔صدر ٹرمپ نے 20 دسمبر کو اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا: ’(ہمارا) 2020 کے انتخابات کو اعدادوشمار سے ہارنا ناممکن ہے۔ چھ جنوری کو (واشنگٹن) ڈی سی میں بڑا احتجاج ہو گا۔ سب وہاں پہنچیں، یہ وائلڈ (بے لگام) ہو گا۔‘ان کے ہزاروں حامیوں نے کانگریس کی عمارت کا رخ کیا جیسا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ انتخابی عمل کے خلاف اپنے غصے کے اظہار اور منتخب نمائندوں پر نتائج کو مسترد کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر کیپیٹل ہل کی عمارت پر مارچ کریں۔ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے سامنے کھڑے مجمعے سے خطاب میں کہا: ’ہم کیپیٹل جا رہے ہیں اور ہم اپنے بہادر سینیٹرز اور کانگریس اراکین کی ہمت بڑھائیں گے۔‘بطور صدر اپنی آخری ممکنہ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو ’لڑنے‘ کی تلقین کی۔انہوں نے کہا: ’ہم کبھی بھی ہمت نہیں ہاریں گے۔

 ہم کبھی بھی ان ’بلشٹ‘ نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے۔‘تقریر کے تقریباً 50 منٹ بعد ٹرمپ کے کچھ حامی ان کے جھنڈے لہراتے ہوئے کیپیٹل ہل کی طرف مارچ کرنے لگے جہاں ایسی افراتفری ہوئی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے عمارت پر حملہ کیا اور قانون سازوں کے چیمبرز میں داخل ہو گئے۔ کانگریس میں سرٹیفیکیشن کا عمل روک دیا گیا اور نائب صدر مائیک پینس اور کانگریس کے ارکان کو عمارت سے نکال لیا گیا تھا۔رات پڑتے ہی کیپیٹل ہل کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے لیکن اس کے باہر تھوڑی ہی دور کئی مظاہرین موجود تھے جن ملیشیا اور انتہائی دائیں بازو کے گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔اوول آفس میں ٹی وی پر افراتفری کے یہ مناظر دیکھنے کے ایک گھنٹے بعد صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ ’مظاہرین کو پر امن رہنا چاہیے۔امریکی پارلیمنٹ عمارت پر صدر ٹرمپ کے حامیوٕں کی ہنگامہ آرائی کے بعد واشنگٹن ڈی سی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، کرفیو پورے شہر پر لاگو ہو گا۔سوشل میڈیا کمپنیوں نے واشنگٹن میں احتجاج کا دفاع کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کر دیئے ہیں۔سوشل میڈیا سائٹس فیس بک، ٹوئٹر اور اسنیپ چیٹ نے امریکی صدر کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا۔ٹوئٹر نےٹرمپ کا اکاؤنٹ 12 گھنٹوں کے لیے لاک کیا۔ ٹویٹر نے امریکی صدر کے اکائونٹ کو مکمل طور پر بند کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔صدارتی انتخابات قبول نہ کرنے اور حامیوں کو تشدد کےلیے امریکی صدر کے تین ٹوئٹس بھی ہٹائے گئے۔انتظامیہ نے خبر دار کیا ہے کہ اگر ٹرمپ ٹوئٹر پر متنازع بیانات سے  باز نہ آئے تو اکاؤنٹ مستقل بلاک کر دیا جائے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے احتجاج کا دفاع کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا تھا کہ ایسے واقعات تب ہوتے ہیں جب عوام کو انتخابات میں ان کے فتح سے دوررکھا جاتا ہے۔ عرصے سے محب وطن امریکیوں کی حق تلفی کی جارہی ہے۔انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ مظاہرین پرامن طریقے سے گھر جائیں اور اس دن کو یاد رکھیں۔امریکی صدر کی جانب سے اس قسم کے ٹوئٹ آنے کے بعد ٹوئٹر نے ٹرمپ کی ٹوئٹ کو ہٹا دیا اور فیس بک نے بھی ٹرمپ کا اکاوَنٹ24گھنٹے کے لیے بلاک کر دیا ہے۔فیس بک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے2مرتبہ فیس بک پالیسی کی خلاف ورزی کی گئی۔امریکہ میں ٹرمپ کے حامیوں کی ہنگامہ آرائی میں خاتون سمیت۵؍افراد کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن کی میئر موریل باؤزر نے شہر میں پبلک ایمرجنسی نافذ کر دی۔امریکی میڈیا کے مطابق میئرموریل باؤزر نے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری تک امن و امان برقرار رکھنے کیلئے ایمرجنسی نافذ کی ہے۔میئر موریل باؤزر کاکہنا ہے کہ ایمرجنسی کا نفاذ 21 جنوری تک ہوگا۔امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق نومنتخب صدر جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری 20 جنوری کو ہوگی۔دوسری جانب خبر ایجنسی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی سینیٹ نے ریاست پنسلوانیا کے انتخابی نتائج پر ٹرمپ اتحادیوں کا اعتراض مسترد کر دیا ہے۔واشنگٹن پولیس چیف رابرٹ کانٹی کا کہنا ہے کہ امریکی پارلیمنٹ کیپیٹل ہل پر ہنگامہ آرائی کرنے والے 52 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے جن پر کرفیو کی خلاف ورزی اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزامات ہیں۔پولیس چیف نے کہا کہ ریپبلکن، ڈیموکریٹ کمیٹیوں کے ہیڈ کوارٹر سے دو پائپ بم بھی برآمد ہوئے ہیں۔دوسری جانب واشنگٹن کی میئر موریل باؤزر نے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری تک امن و امان برقرار رکھنے کیلئے 21 جنوری تک ایمرجنسی نافذ کی ہے۔برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے وائٹ ہاؤس کے باہر پرتشدد مظاہرے کی مذمت کی جبکہ فرانسیسی وزارت خارجہ امور نے کہا کہ امریکی جمہوریت پر سنگین حملے کی مذمت کرتے ہیں۔یورپی یونین نے کہا کہ امریکی جمہوریت پر حملہ قابل مذمت ہے۔ نیٹو چیف نے کہا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ہلا دینے والے مناظر ہیں۔نومبر 2020 میں امریکہ کا صدارتی انتخاب جیتنے والے جو بائیڈن نے اپنی کامیابی کی توثیق کے لیے منعقد ہونے والے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس پر صدر ٹرمپ کے حامیوں کا دھاوا بولنے کے عمل کو ’بغاوت‘ قرار دیا ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی